ELECTION 2013 NEWS REEL . . . . الیکشن 2013 خبریں اور تجزیئے
NA-250 کراچی کا اہم حلقہ اور ایم کیو ایم کے امکانات
قومی اسمبلی کا حلقہ 250 اس وقت ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جسکی وجہ شائد یہ سمجھی جاتی ہے کہ یہاں سب سے زیدہ امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اس حلقے میں مقابلہ بہت سخت ہوگا اور ایم کیو ایم کو یہاں جیتنے کیلئے بہت سخت محنت کرنی پڑے گی۔حقیقت حال اس سے کہیں مختلف ہے جیسی کہ میڈیا پر پیش کی جا رہی ہے۔ اس طرح کا تاثر پیش کرنے کیلئے 2002 کے انتخابات میں ایم کیو ایم کی اس حلقے سے شکست کو جواز بناتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ اس وقت ایم کیو ایم کے بیشتر کارکنان ریاستی آپریشن کی وجہ سے اپنے علاقوں میں نہیں تھے اور مقامی قیادت بھی روپوش تھی جبکہ مخالفین کو یہاں کھلا میدان مل گیا تھا ۔ اسکے باوجود بھی یہاں سے جیتنے والے کو دانتوں پسینے آگئے تھے ۔ اسکے بعد جب 2008 کے انتخابات ہوئے تو ایم کیو ایم نے اس حلقے سے کامیابی حاصل کی۔اس مرتبہ صورتحال ایم کیو ایم کے حق میں شائد پہلے سے بہت بہتر ہے کیونکہ ایم کیو ایم نے نہ صرف عوامی خدمت کے کام کئے ہیں بلکہ اس علاقے میں رہائش پذیر اعلی تعلیم یافتہ طبقہ قانون سازی کیلئے کئے گئے ایم کیو ایم کے اقدامات کو بھی سراہتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس مرتبہ اس حلقےکو کمزور سمجھتے ہوئے تیس سے زائد امیدواروں نے یہاں سے الیکشن لڑنے کی ہمت کی ہے ۔ اور یہی بات ایم کیو ایم کیلئے ایک مثبت نکتہ ثابت ہوتی ہے ۔ ایم کیو ایم کا ووٹ بنک نہ صرف اپنی جگہ قائم رہتا ہے بلکہ یہ ایسی جماعت ہے جو ہمیشہ عوام سے نہ صرف رابطے میں رہتی ہے بلکہ نئے ووٹرز کی رجسٹریشن سے بھی کبھی غافل نہیں رہتی ۔ اسکے کارکنان کبھی آرام کے ایک لمحے سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ لہذا ایم کیو ایم دوسری جماعتوں کے برعکس جو صرف انتخابات کے موقعے پر ہی جاگتے ہیں ہمہ وقت بیدار رہتی ہے ۔ اس طرح ایم کیو ایم کا ووٹ بینک اس حلقے میں بڑہا ہے اور تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی ، نواز لیگ اور جماعت اسلامی کے درمیان ووٹ تقسیم ہوجانے کے باعث یہ حلقہ ایم کیو ایم کے لئے پہلے سےزیادہ محفوظ ہوگیا ہے۔
میڈیا پر جومہم جلائی جارہی ہے کہ یہاں ایم کیو ایم کو مقابلہ کرنا پڑے گا وہ دراصل اس بہت بڑی مہم کا حصہ ہے جسکے تحت مختلف میڈیا گروپس اور افراد کو باقاعدہ ادایئگیاں کرکے اور انہیں ہائر کرکے تاثر قائم کیا جارہا ہے کہ عوام کی بڑی اکثریت پی ٹی آئی کو ووٹ دے گی اور تعلیم یافتہ و صاحب ثروت طبقات کا اور نوجوان کا ووٹ عمران خان کو جائے گا ۔ یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ مذکورہ طبقات کی اکثریت پہلے سے زیادہ الطاف حسین کی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے جارہی ہے ۔ اور اسکی وجہ یہ ہے کہ الطاف حسین کی پارٹی نے شہر یوں کو کام کرکے دکھایا ہے ۔ انکے پاس وعدے نہیں بلکہ نظر آنے والا کام ہے جو ان کی اصل طاقت ہے ۔ ڈیفنس اور کلفٹن کے عوام کی اکثریت مصطفے کمال کے دور کو ابھی بھی یاد کرتی ہے اور انہیں اسکے لئے خراج تحسین پیش کرتی ہے ۔جہاں تک نوجوانوں کا تعلق ہے تو ایم کیو ایم ہی وہ پارٹی ہے جسکا خمیر ہی نوجوانوں سے اٹھا اور تحریک انصاف جو یہ دعوی کرتی ہے کہ اس نے پہلی مرتبہ سب سے زیادہ نوجوانوں کو ووٹ دیئے تو وہ بھول جاتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے 1987 کے بلدیاتی اور 1988 کے عام انتخابات میں چند ایک کے علاوہ تمام ہی نوجوانوں کو ٹکٹ دیئے تھے اور انہیں منتخب کرکے ایوانوں میں بھجوایا تھا اور ابھی بھی ملک بھر میں 671 امیدواروں میں سے بیشتر نوجوان ہی ہیں ۔ اگر الطاف حسین نوجوانوں کا ایک جلسہ کرالیتے ہیں تو ملک کی کوئی پارٹی اس جلسے کے مقابلے پر جلسہ نہیں کرسکے گی ۔ جیسا کہ مزار قائد پر ہونے والے خواتین کے جلسے کی مثال ہے جس کا آج تک کوئی پارٹی جواب نہ دے سکی ہے ۔