Published Articles
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے صحافیوں کو فائدہ یا انکی زندگی کو لاحق خطرات میں اضافہ: صحافی برادری کب احتجاج کرے گی؟
سید جنید علی
جب
کبھی بھی میری نگاہ انسانی حقوق کے اس ادارے کےوژن پر پڑتی تو خود بخود میرا دل
اس ادارے کی عزت کرنے کو چاہنے لگتا تھا۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ اس ادارے کی خواہش
ہے کہ دنیا میں موجود تمام انسانوں کو وہ حقوق حاصل ہوں جسکا وعدہ ان سے بین
الاقوامی انسانی حقوق کے ڈیکلریشن میں کیا گیا ہے۔ اس کے وژن میں ہی یہ بات موجود
ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اس ادراے کی کسی حکومت ، یا سیاسی
نظریہ ، معاشی فوائد کے لیے کسی ادارے سے وابستگی نہیں ہے۔
اس کے باوجود کے میرے کان میں ظلم و جبر کی آوازیں میرے وجود کو ہلاتی رہتی ہیں
اور مجھ سے ہی جنگ لڑتی رہتی ہیں کہ تم کن اصولوں کی بنیاد پر اس ادارے کی حرمت
پر اتنا یقین رکھتے ہو ۔ کشمیر، فلسطین، امریکہ کی افغانستان و عراق میں جبر و
بربریت پر ایمنسٹی انٹر نیشل کی بہت واجبی انداز سے ایسی ریپورٹنگ جو ان معاملات
کو نظر انداز کردینے ہی کے برابر ہے ۔ میرا سینہ اپنے شہر کراچی میں روز ہونے
والے ریاستی جبر، ریاست میں موجود غیرریاستی افراد کے ہاتھوں میرے شہر کے
نوجوانوں کی تشدد شدہ لاشوں کو دیکھ کر درد اور تکلیف سے پٹھتا جاتا ہے مگر پھر
بھی دل میں یہ خواہش ہے کہ ضرور ایمنسٹی انٹرنیشل کوئی تحقیق کررہا ہوگا اور ہم
پر ریاست کے جبر، مکر اور قتال و نسل کشی پر ایک دن ساری دنیا کو بتا دے گا کہ
پاکستان میں حکمران اور ریاستی اداروں میں موجود غیر ریاستی عناصر اصل میں
جمہوریت اور نفاذ امن کے آڑ میں ایک سیاسی جماعت کی غالب اکثریت جو اردو بولتے
ہیں کو نسل کشی کا شکار بنا رہے ہیں۔
جب میں نے 22 اپریل کی صبح کا اخبار دیکھا تو میری کچھ اُمیدیں بندھی اور اپنے
یقین پر یقین اور پختا ہوگیا کہ کہ انسانی حقوق کا یہ ادارہ کراچی میں اردو بولنے
والوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس سلوک پر سو نہیں رہا ہے۔ کیوں کہ 21اپریل کو
اس ادارے نے کراچی میں متحدہ قومی مومنٹ کے اردو بولنے والے کارکنوں کے اغوا،
بہیمانہ تشدد اور ماروائے عدالت قتل پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔
م جیسے لوگوں میں اس تشویش کے
اظہار سے اُمید کی ایک کرن پیدا ہوگئی کہ اب کراچی میں جاری ریاست کے اداروں میں
دہشت ذدہ کرنے والے غیر ریاستی افراد جو قتل ، اغوا اور ماروائے عدالت قتل میں
ملوث ہیں کا پردہ چاک ہوجائے گا کیوں کہ یہ اُمید پیدا ہوگئی تھی کہ جب تحقیقاتی
ریپورٹ شائع ہوگی تو پھر ضرور ان معاملا ت اور ساتھ ہی ساتھ اردو بولنے والے
متحدہ کے ہمدردوں کے معاشی، اور تعلیمی قتل عام پر بھی تشویش کا اظہار ہوگا۔ اس
با ت پر تشویش کا اظہا ر کیا جائے گا کہ پاکستان میں کراچی اب ایسے علاقے کا منظر
پیش کرتا ہے جو پورے پاکستا ن کے علاقے پاکستان کی آذادی سے پہلے نوآبادیاتی نظام
کے طور پر تاج برطانیہ کے دور میں جاری تھا۔ جمہوریت کے نام پر جمہوریت کے باغ ہی
کو اُجاڑ دیا گیا ہے۔ لوکل باڈیز الیکشن پچھلے سات سال نہیں ہوئے ہیں، اور مستقبل
میں بھی کوئی امکان نہیں۔ اس شہر کو دور اسلام آباد سے بیٹھ کر کچھ لوگ انسانی
لباس میں ملبوس درندگی سے کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس خبر سے جو اُمیدبندھی تھی وہ خواب ہی ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے پاکستانی مندوبوں
یا مشاہرے پر لیے گئے افراد نے چکنا چور کردیا۔ انھیں صحافیوں کی حالت زار پر جو
ریپورٹ لکھ کر صحافیوں کی زندگی میں لاحق خطرات کو کم کرنے کی کوشش کرنے کا کہا
گیا تھا۔ ان لوگوں نے اس پوری ریپورٹ کو اپنے ذاتی عناد، تعصب اور ایک قوم کو
معتوب کرنے کی خواہش سے مجبور ہوکر خراب کردیا۔
ان بے ضمیر نمائندوں نے اپنے زہنی مرض کے مطابق حامد میر پر ہونے والے حملے کے
بعد لکھے جانے والے تحقیقاتی ریپورٹ کا نقشہ ہی تبدیل کرکے اس شہر کی 85% فیصد
آبادی کے نمائندہ جماعت کے خلاف موڑ دیا۔ ان لوگوں نے اس شہر میں جاری بربریت ،
قتال، انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں پر اردو بولنے والوں کی تکالیف اور درد
میں اضافہ کردیا ہے۔ جب میں نے اس ریپورٹ کو لفظ بہ لفظ پڑھا تو مجھے میں کراچی
سے متعلق لکھے گے ہر پیرا گراف میں ان لوگوں کی بے ایمانی اور فریب اور جھوٹ نظر
آیا ۔ اسی لیے میں یہ اپنی قومیت کی جانب سے یہ ذمہ داری محسوس کرتا ہوں کے اپنے
لوگوں تک اس اُمید کے ساتھ یہ مقدمہ لے جاوں کے شائد ایمنسٹی انٹرنیشل بھی اپنی
ذمہ داری محسوس کرے۔ مجھے اس تحریر کی طوالت سے کوئی غر ض نہیں میں اس کو بے جا
طویل نہیں کرنا چاہتا مگر اس کو تشنہ بھی نہیں چھوڑ سکتا ۔ میں نے بین الاقوامی
اداروں کی خبروں، تجزیوں اور بلاگ کی مدد سے یہ ثابت کیا ہے کہ ریپورٹ لکھنے والے
جھوٹے ہیں اور انھوں نے اس ریپورٹ میں غلط بیانی سے کام لیکر ایمنسٹی انٹرنیشنل
کے ادارے کو دھوکہ دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس ریپورٹ کو دیکھ کر میں صحافی برادری
سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی اس بات پر احتجاج کریں کہ اس ریپورٹ کو غلط رُخ دیکر
انھیں مذید خطرے میں ڈالا گیا ہے۔
اس ریپورٹ میں صفحے کے صفحے اس بات پر کالے کیے گئے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت یہاں
صحافیوں کو دھماکاتی ہے۔ اس ریپورٹ میں کہیں اس بات کا ذکر بھی موجود نہیں ہے کہ
اس شہر پر مکمل طریقے سے طالبان، ریاست کے غیر ریاستی افراد اور ایسے گینگ کا
قبضہ ہے جو شہر میں اپنی علیحدہ ریاست قائم کئے بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ اغوا برائے
تاوان، اردو بولنے والوں کی نسل کشی، بنکوں میں ڈکیتی، آبادیوں پر حملے، ریاست کی
زمین پر قبضہ غرضیکہ ہر طرح کی دہشت گردی جس میں صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے اور
بہت سارے ٹی چینلوں پر حملے کرنے میں ملوث ہی نہیں ہیں بلکہ بڑے غرور کے ساتھ اس
کو تسلیم کرکے اپنی موجودگی اور قوت کا احساس بھی دلاتے ہیں۔
حال ہی میں وال اسٹریٹ جرنل نے کراچی پر اپنی تحقیقاتی ریپورٹ شائع کی تھی۔ جس
میں اس نے کراچی میں کلعدم تنظیمواں ، طالبان، بلوچستان لبریشن آرمی، گینگ وار،
اور جرائم پیشہ افراد اور ریاست کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ان سے ہمدردی
ساتھ ہی ساتھ انکے ساتھ ملکر پیسہ اکٹھا کرنے سے لیکر قتل کرنے تک کا بتایاگیا
تھا۔ اس ریپور ٹ میں کراچی پر اصل حکمرانی کا تاج طالبان اور ریاست کے اندر موجود
غیر ریاستی عناصر کو دیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ طالبان باقاعدہ کراچی کے
40%فیصد علاقے میں حکومت چلاتے ہیں وہاں انکی عدالتیں ہیں اور وہ وہاں سے ٹیکس
اکٹھا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بتایا گیا تھا کہ بقیہ کراچی بھی انکی پہنچ سے
دور نہیں ہے اور وہ سارے کراچی پر راج کرتے ہیں۔
ایمنسٹی
کی پاکستان میں جن افراد نے یہ ریپورٹ بنایا ہے انھوں نے کراچی میں اصل قوتوں کی
جانب اشارہ نہ کرکے اصل میں صرف صحافیوں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو بھی خطرے میں
ڈال دیا ہے ۔ کراچی میں غیر قانونی طریقوں سے جو پیسہ جمع ہورہا ہے وہ اصل میں دہشت
گردی کی کاروائیوں کو جاری رکھنے کے لیے پاکستان کے دوسرے علاقوں میں استعمال ہورہا
ہے ۔ شائد بہت جلد دنیا کو کراچی سے جمع ہونے والے غیر قانونی سرمایہ جمع ہونے کا
زخم ایک اور 9/11کی شکل میں دیکھنے کو ملنے والا ہے۔ ایمنسٹی کو اپنے ریپورٹ کی
خامیوں کو ایک نظر ضرور دیکھنے کی ضرورت ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ریپورٹ میں کراچی میں جاری تمام صحافتی برادری کے لیے ایسے
ظاہر کیا گیا ہے جیسے اس شہر کی نمائندہ جماعت ہی اس میں اپنا سارا کردار ادا کررہی
ہے۔ اس ریپور ٹ میں اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے کہ کراچی میں مارے جانے
ایکسپریس نیوز چینل اور آج ٹی وی کے دفتر پر حملے کو طالبان نے تسلیم کیا ہے۔
لیکن تحقیقاتی ریپورٹ لکھنے والوں نے جان بوجھ کر پوری ریپورٹ میں کہیں بھی کراچی
کی اس بدترین صورت حال میں کراچی کا اصل کنٹرول کس کے ہاتھ میں انھیں سامنے لانے کے
بجائے جان بوجھ کر ایجنسی کو بھی اُلجھایا ہے اور قارئین سے سچ کو چھپا کر مجرامانہ
ذہنیت کا اظہار کیا ہے۔
میں یہاں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ریپورٹ میں پاکستانی لکھاریوں کی جانب سے شامل کی
گیا پیرا گراف دکھا رہا ہوں
A paragraph from Amnesty International
Report:
\"Amnesty International has received credible allegations of the harassment,
abduction, torture and killing of journalists carried out by a range of
perpetrators. These include, but are not limited to: the Directorate for
Inter-Services Intelligence (ISI), the military\'s premier intelligence service;
the Muttahida Quami Movement (MQM) political party; the armed group
Lashkar-e-Jhangvi (LEJ) and its associated religious group Ahle Sunnat Wal
Jamaat (ASWJ), Tehreek-e-Taliban (henceforth \'the Pakistani Taliban\') and al-Qa\'ida-linked
groups; and ethnic Baloch armed groups, both pro- and anti-state.\"
اگر آپ اس پیرا گراف کا بغور جائزہ لیں تو کچھ باتیں سمجھ میں آتی ہیں حامد میر پر
حملے کے بعد براہ راست الزام آئی ایس آئی کے خفیہ ادارے پر لگایا گیا۔ یہاں تک تو
یہ بات درست ہے کہ واقع کی قربت نے خفیہ ادرارے کو سب سے پہلے صحافیوں پر حملے کا
ذمہ دار ٹہرایا حالانکہ پورے پاکستان میں ایک دو کے علاوہ تمام قتل ہونے والے
صحافیوں کو طالبان نے قتل بھی کیا اور غرور سے اس کا اعتراف بھی ۔ لیکن یہ سمجھ سے
بالاتر ہے کہ کراچی میں جب سارا کنٹرول دہشت گردوں ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہ ایسے
حملوں کا بڑی بے خوفی سے اعلان کرتے ہیں تو پھر دہشت گردوں کے ناموں کو لکھنے سے
پہلے ایک جمہوری طریقے سے منتخب پارٹی کے نام کو دہشت گردوں سے پہلے لکھنے کے مقاصد
کیا ہیں۔ سب سے اہم بات جو اس پیرا گراف میں نظر آتی ہے جس کی ایمنسٹی انٹرنیشنل کو
بھی تحقیق کرنی چاہیے کہ آخر جب ایک بین الاقوامی اخبار دی گارجیں نے ایکسپریس چینل
اور ایکسپریس اردو اور انگریزی اخبار کے میمو کو لیک کیا اور بتایا کہ کراچی میں
ہونے والے حملے میں ویسے تو طالبان ملوث تھے لیکن اس کے باوجود تمام صحافیوں کو
طالبان ہی کے ہمدردوں عمران خان کی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سے بھی خطرہ ہے۔
اب یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ جب بین الاقوامی ادارے دوسری سیاسی اور مذہبی
تنظیموں پر متفق ہیں کہ وہ صحافیوں پر حملے میںیا تو ملوث ہیں یا پھر حمایت کرتے
ہیں توپھر اس ریپورٹ کو جان بوجھ کر حقائق کو مسخ کرنے اور گمراہ کرنے کے لیے کیوں
استعمال کیا گیا ہے۔
اس ریپورٹ میں جن لوگوں کویہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ ایک صاف و شفاف تحقیق کے
بعد ریپورٹ لکھیں تاکہ صحافیوں کی زندگی کو لاحق خطرات کو کم کیا جاسکے اور ریپورٹ
کی روشنی میں انکے حفاظت کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے میں آسانی ہو۔ لیکن تحقیقات
میں جان بوجھ کر ایسے صحافیوں کا انٹرویو میں شامل کیا گیا جو کراچی میں جانبداری
اور غیر ذمہ داری کی وجہ سے بری شہرت رکھتے ہیں۔ اس غیر منصفانہ رویے کی وجہ سے جو
ریپور ٹ شائع ہوئی اس پر پورے کراچی میں عوام میں جذبات پیدا ہوئے اور بڑے پیمانے
پر لوگوں نے اس کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا۔ بلکہ کل بروز جمعرات ، 8اپریل
2014کو ایک بڑی احتجاجی ریلی بھی پریس کلب پر اس ریپورٹ پر احتجاج کرے گی۔
اب پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اگر اس ریپورٹ پر احتجاج ہی شروع ہوگیا ہے تو
یہ ریپورٹ تو ویسے ہی مشکوک بنا دی گئی۔ اب اس ریپورٹ کی حیثیت اور صحافیوں کے لیے
اس سے کیا فائدہ حاصل ہوا خود ایک بڑ اسوال بن کراُبھر رہی ہے۔ اس ریپورٹ میں
جیسمین منظور نامی صحافی کا انٹریو اس طرح سے مصالحہ لگا کر بیان کیا گیا ہے جیسے
کسی ڈرامے کی اسکپرٹ لکھی گئی ہو۔ وہ صحافی جو جان کے خطرے کا بہانہ بناکر اپنی
چھٹیاں گذارنے اور کینڈا میں شہریت حاصل کرنے کے لیے گئی اور ناکامی پر اسی شہر میں
دھڑلے سے اب تک ٹی وی پر پروگرام کررہی ہے اس سے یہ سوال نہیں پوچھا گیا کہ اگر آپ
کی جان کو خطرہ ہے تو پھر آپ جو یہاں سے شور مچا کر چلی گئی تھیں واپس آئی ہیں تو
زندہ جاوید دنداناتی کیسے پھر رہی ہیں۔ اس ریپورٹ میں سلیم شہزاد کی موت، یا عمر
چیمہ پر کوئی حقیقی ریپور ٹ نہیں ہے مگر جیسمین منظور کو نور نظر بنا کر ایک سیاسی
تنظیم کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس ریپورٹ میں صفحے کے صفحے کراچی شہر میں صحافیوں کو پائے جانے والے خطرات کو
بلاجواز کئی گنا بڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے حالانکہ کراچی میں 2000 سے اب
تک صرف تین صحافی اور تین صحافتی ورکر مارے گئے ہیں جن میں سے ایک ڈینئیل پرل ہے ۔
پور ے پاکستان میں اس عرصے میں 87صحافی قتل کئے گئے ہیں جو سب کے سب کے پی کے،
بلوچستان اور پنجاب میں قتل کیئے گئے ہیں لیکن کراچی جس میں کوئی ایک صحافی بھی
سیاسی ورکر کی وجہ سے نہیں قتل ہوا کو صحافیوں کے لیے غیر محفوض بتا کر نہ صرف یہ
کہ اس شہر میں جاری قتل و غارت گری کی خاموش حمایت کی گئی ہے بلکہ جمہوریت کا چہر ہ
بھی مسخ کرکے ناانصافی کی گئی ہے۔ ایک سیاسی پارٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے
جو کہ پچھلے کئی دھائیوں اور آٹھ جمہوری الیکشن میں اپنا اثر قائم رکھے ہوئے ہے۔
ایمنسٹی کو ضرور دیکھنا چاہیے کہ اس کی کوششوں کہ صحافیوں کی زندگی کو بچایا جائے
کو کس طرح سے ناکام کردیا گیا ہے۔
جیسمین کے علاوہ رضا رومی کے اوپر کیئے جانے والے حملے کو بھی اسکرپٹ کرکے لمحہ بہ
لمحہ بتایا گیاہے۔ لاہور میں کیئے جانے والے جس حملے کو ڈرامہ نگاری کے طرز پر
بتانے کی کوشش کی گئی ہے اس لگتا ہے کہ ریپورٹ لکھنے والوں نے تحقیق کے بجائے گوگل
سرچ پر جاکر کچھ کہانیاں ڈاون لوڈ کرلی ہیں جبکہ کئی ایسے بہادر صحافیوں جنھوں نے
اپنی فرض کی ادائیگی کے دوران تشدد سہا اور کچھ قتل بھی کردئے گئے انکے واقعات کو
حقیقت نگاری کا روپ بھی نہیں دی گیا۔
جیسمیں منظور کی پوری ڈرامہ نگاری کو اگر کوئی عنوان دیا جاسکتا ہے تو وہ پاکستان
کے الیکشن میں متحدہ کی دھاندلیاں۔ مگر جیسمیں منظور اپنے سیاسی پنڈت عمران خان کی
ایک سیٹ پر ایک پولنگ اسٹیشن میں ہونے والی بے ضابطگی کو تو پورے طرح سے پورے
الیکشن کے نتیجے میں غلط ثابت کرکے جمہوری طور پر منتخب ہونے والی پارٹی کے حق پر
ڈاکہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کررہی ہیں۔ ان سے تو یہ سوال پوچھا جانا چاہیے تھا کہ
جناب آپ کی پوری ریپورٹنگ جس تحریک کو بدنا م کرنے پر ہے وہ تو محض ایک پولنگ
اسٹیشن پر بے ضابطگی سے متعلق ہے آپ اسی تحریک جس کی آ پ بڑے زور شور سے نمائندہ بن
نے کی کوشش کررہی ہیں اس کے اپنے بیانات کو دیکھیں وہ تو پورے پنجاب کے الیکشن کو
دھاندلی پر مبنی بتا رہے ہیں اور ہزاروں پیج کی ثبوت بھی دے رہے ہیں تو آخر آپ کی
بات کو کسے اہمیت دی جاسکتی ہے۔ جیسمین سے سوال کیا جانا چاہیے تھا کہ نجم سیٹھی پر
تو 35سیٹو ں پردھاندلی کرواکر نواز لیگ کو ہروانے کا الزام ہے جس کو بڑے اخباروں نے
بھی تسلیم کیا ہے تو اخرآپ ایک پارٹی پر بغیر کسی بڑے شواہد کے اتنا بڑا الزام کیوں
لگا رہی ہیں۔
نجم
سیٹھی کے بارے میں اس ریپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ نجم سیٹھی کو آئی ایس آئی کی جانب
سے خطرہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ متحدہ قومی مومنٹ کو بلا جواز نام لیکر خاموشی سے مشق
ستم بناکر اس سے بے انصافی کی گئی ہے
Extracted From Amnesty International report:
Najam Sethi, an outspoken critic of the military and the MQM, who has also faced
death threats and been subjected in the past to abduction and torture. Yet both
Najam Sethi and Hamid Mir have publicly claimed to have received threats from
the ISI.
حالانکہ نجم سیٹھی کی اپنی بیٹی میرا سیٹھی نے اپنے والد، رضا رومی او دوسرے پندرہ
جرنلسٹ کے بارے میں صاف طور پر لکھا ہے کہ ان لوگوں کو طالبان سے خطرہ ہے خفیہ
ایجسی آئی ایس آئی سے نہیں۔ ایمنسٹی
انٹرنیشنل کو اپنے ادارے کی غیرجانبداری اور ساکھ کو قائم رکھنے اور ہر انسان کو
بین الاقوامی انسانی حقوق کی پاسداری کی خاطر اس ریپورٹ پر خود ہی تحقیاتی کمیشن
قائم کرنا چاہیے اور اس کو فی الحال واپس لے لینا چاہیے۔
صحافی برادری کو بھی اس ریپورٹ میں ان کے ساتھ کیئے گئے دھوکے پر احتجاج کرنا چاہیے
اور انھیں بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ریپورٹ کا رُ خ
موڑ کر انکے ساتھ بدترین دھوکہ کیا گیا ہے۔
. ایڈیٹر نوٹ: اس رپورٹ کی
اہمیت کے پیش نظر اسے جلد از جلد قاریئن تک پہنچانے کی کوشش میں پروف ریڈنگ کی کچھ
غلطیاں ہوسکتی ہیں جس کیلئے معذرت اور ساتھ ہی اگر آپ اس پر تبصرہ کرنا چاہیں تو یہ
صفحات حاضر ہیں۔ آپ کا تبصرہ شکریئے کے ساتھ شائع کیا جائے گا ۔
Email: editor@newslinekarachi.com